میرا نام زینب




میں اپنے بابا کی رانی
میرا نام زینب
میرے بابا مجھے پری بلاتے تھے
میری مما مجھے تتلی کہتی تھیں
میں ان کے آنگن کا پھول
گھر بھر کی رونق
جب بابا شام کو گھر آتے
میں اپنی بانہیں ان کےگلے میں ڈال کر جھولا جھولتی
اس سے میرے بابا کی تھکن اتر جاتی
بابل کی آنکھوں کا سکون تھی میں
بابا اللہ جی سے ملنے سب سے پیارے گھر مکہ گئے تو میں مما اور بابا کے بغیر بالکل تنہا ہو گئی۔
پھر ایک شام دو بھیڑیوں نے مجھے اغوا کر لیا
مجھے اٹھا کر لے گئے
مجھے نہیں پتا میرا قصور کیا تھا
میں روئی
چلائی
تڑپی
لیکن ان درندوں کو میرے اوپر ترس نا آیا
میرے ساتھ وہ کیا جومیں سوچ بھی نا سکتی تھی
میرا ننھا وجود آبلا پا ہو گیا
میں کرچی کرچی ہو گئ
میرا جسم ریزہ ریزہ ہو گیا
میری عزت کی دھجیاں اڑا دی گئیں
رحم نا آیا
زمین نا پھٹی
آسمان نا ٹوٹا
لہو لہو تھا میرا انگ انگ
میری چیخیں سننے والا کوئی نا تھا
اس سب کے بعد سفاک درندوں نے میرے ساتھ ایک نیکی بھی کر دی
میرا گلا گھونٹ کر مار دیا مجھے
انسانیت مر گئی میرے ساتھ
اب میں کس لئے جینا تھا۔
مما کی تتلی اور بابا کی پری کو روند ڈالا بھیڑیوں نے
کون حساب دے گا
کون انصاف دے گا
کیا میں جنگل میں رہتی تھی
جہاں پر کوئی قانون نہیں
کوئی عدالت نہیں
جسٹس کا کوئی نظام نہیں

اچھا انکل
پلیز میرا ایک کام کیجئے گا
میرے بابا اور مما بہت روئیں گے
ان کو دلاسا دینا
انہیں کہنا آپ کی پری اپنے رب کی جنت میں آپ کی منتظر ہے۔
رب کی عدالت سے ہمیں انصاف ضرور ملے گا
یہاں اس جنگل میں عافیہ جیسی بیٹی کو بیچ دیا جاتا ہے میں تو ابھی بہت چھوٹی ہوں مجھے انصاف کون دے گا۔
بس میرے بابا سے کہنا وہ صبر کریں
مجھے انصاف نہیں چاہیئے
اللہ کریم بہترین انصاف کرنے والا ہے..!!😭

No comments:

Post a Comment